Saturday, 31 December 2011

در بیان حضر ت امیر المومنین امام حسن

(روحی فد اۃ)
اسم مبا رک آپ کا اسم شر یف حسن ؑ ہے۔ بمعنی نیکو اور شبر بر بان عبر انی نیکو کے معنی ہیں۔ شبر حضرت مو سیٰ ؑ کے بھائی حضرت ہا رون ؑ کے بڑے بیٹے کا نا تھا۔ اول اول والدین نے حرب رکھا تھا جب حضرت رسول خدا تشر یف لائے تو باری تعالیٰ عزاسمہ کے فرمان کے بمو جب حسن رکھا تھا۔ 
کنیت: آپکی ابو محمد ہے اور یہ بھی رسول خدا نے ہی کرامت فرمائی تھی۔ 
القاب مبار ک: وصی۔ ولی، زکی ۔ سید ۔ طیب ۔ تقی۔ حجت ۔ سبط۔ متل بز بان عربی شبر بچہ طور سینن ۔ اول سبطین ۔ مجتبیٰ ۔ اول آل عیا ۔ 
والدین: آپکے با پ کا نام امیر المو منین علی ؑ مر تضیٰ کر م الد و جہہ بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہا شم بن عبد المنا ف تھا۔ اور آپکی مادر رضاعی ام الفضائیل زوجہ عباس بن عبد المطلب تھیں۔ 
تاریخ ولا دت آنحضرت امام حسن علیہ السلام 
شب جمعہ بعض کے قول میں روز سہ شنبہ سو م شعبان المعظم بر وایت محسیحہ پند رھو یں رمضان المبار ک سال سوم از ہجرت ہر مز با دشاہ کے زمانے پیدا ئش واقع ہوئی بعض کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ یز د جر د با د شاہ کے زمانے میں ہجرت سے دو سرے سال مدینہ منور ہ میں جنگ بد رسے دوروز پہلے آپ پیدا ہوئے۔ 
اسمائے ازواج حضرت امام حسین علیہ الصلو اۃ و السلام
سوائے کنیزان خاصہ کے چو نسٹھ عو رتیں نکا ح میں آئی تھیں۔ ازواج مشخص کی تفصیل یہ ہے ام ابشر بنت 
ابی
مسعود ۔ مادر زید اور دو خواہرش فا طمہ کبریٰ و فا طمہ صغر ا ، کز نا نو اور قاسم ابن حسن لقب حسین۔ اثرم۔ اسماء لمعونہ لقب بہ جعد ہ حسینی حسنے حضرت کو زہردے دی ۔ ارباب ۔ ربیعہ مادر عبداللہ ۔ ام اسحق بنت طلحہ بن عبد اللہ تہمی ما در حسین ابن حسن لقب بہ حسین دیگر عو رتوں کے نام معلوم نہیں۔ 
علت و فات : جعدہ بن اشیعت بن قیس ان کی زوجہ تھیں اس نے الما س کے زیر ے حضرت کو کھلا دیئے یہ عور ت مائل ، عیش و عشر ت رہا کر تی تھی۔ حاکم شدام کی تحریص سے آپکو زہر دے دی۔ 
وفا ت: چہارم جما دی الا ول کو بعج کی روایت سے سا تویں صفر و بقولے اٹھا ئیسویں صفر کو وفات پائی۔ بعض کہتے ہیں کہ بتا ریخ ما ہ مذکور انچا سویں سال ہجر ت سے اور بعض کے قول کے موجب پچا سواں ہجرت کا سال تھا۔ معا ویہ ابن ابو سفیان کی با دشاہی کا زمانہ تھا۔ 
مد فن : جنت البقیع میں آپکا مزار ہے ۔ آنحضرت صلعم نے خبر دی تھی۔ کہ مرے ر وضہ کے اندر دفن کرنے سے لو گ منع کر ینگے ۔ اس سبب سے کہ حضرت عثمانؓ غنی کو دفن نہیں کیا۔ آخر ش حضرت امام حسین ؑ نے بعد تجہیرز و تکفین و بعد از کا ز جنا رہ تخت مبار ک دوش بد وش اٹھا کر چاہا کہ رسول خدا صلعم کے روضہ مبارک کی زیارت کیطر سطے لے جائیں۔ تب مر دان بن حکم اور دیگر حضرت عثمانؓ بن عفان کے رشتہ داروں نے اور دیگر نبی امیہ نے جمع ہو کر اور مسلح ہر کر ممانعت کی۔ اس خیال سے کہ حضر ت اما م حسن ؑ کو روضہ مبار ک میں دفن کر ینگے۔ سخنان نا ہنجا د و نا نرا کہنے لگے۔ اور چند تیر بھی نعش مبار ک کی طر ف چلانے اور ایک تیر جنا زہ پر بھی لگا۔ قریب تھا کہ بنی ہا شم و بنی امیہ میں جنگ عظیم بر پا ہوا۔ مگر حضر ت اما م حسن کی وصیت کے مطابق عمل کر کے جنا زہ مبارک کو جنت البقیع میں اپنی جد ہ ؟؟؟؟؟؟؟؟ کی قبر کے قریب یعنی فا طمہ بنت اسد کی قبر کے قریب مد فون کیا۔
سن مبارک : اپنے والد ما جد کی وفا ت کے بعد دس سال و تین روز زندہ رہے۔ اس تفصیل سے بیان کر تے ہیں ۔ کہ آپ نے اپنے نانا بز رگوار کی خدمت میں سات بر س اور پدر ر بز گوار کے ہمرا ہ انتا لیس سال اور بعد با پ کے دس سال زندہ رہے۔ اور صحیح قول یہ ہے کہ رسول خدا صلعم کے ساتھ آنجناب کا قیام چھ سال چھ ماہ پچیس روز اور اپنے والد ماجد کے ہمراہ اانتیس (۲۹) بر س چھ ماہ بائیس روز کل چھتیس بر س ایک ماہ ستا ئیس روز ہوئے۔ با قی عمر اپنے والد ما جد کے بعد جو ایام خلا فت میں شما ر ہیں۔ گیا رہ سال ساتھ مہینے چو دہ روز ہوئے اور اس مین چھ ماہ خو د اما مت کی۔ پھر معا ویہ کے حوالہ کر دی۔ آپ کی عمر سینتالیس بر س نو ماہ ایک روز ہے۔ بعض لکھتے کہ سینتالیس بر سے چھ ماہ بائیس روز بعض اسمیں بھی اختلاف کر تے ہیں۔ واللہ علم با لصواب۔ 
اولا د آنحضرت امام حسن علیہ السلام: مشہور ہے کہ آپ کے سولہ ۱۶ بیٹے اور ساتھ لڑکیاں تھیں۔ قاسم ؑ ۔ زیدؑ ۔ حسن ؑ ۔ حسینؑ ۔ حمز ہ ؑ ۔ جعفر ؑ ۔ طلحہ ؑ ۔ اسمعیل ؑ ۔ ابوبکر ؑ ۔ عمر ؑ ۔ عبداللہ ؑ ۔ عبدالر حمن ؑ ۔ عبداللہ ؑ اصغر ۔ جو اد محمد ؑ اور بیٹیوں کے نام یہ ہیں۔ ام الحسن ؑ ۔ام الحسین ؑ ۔ ام عبد اللہ ؑ ۔ ام سلمہ ؑ ۔ رقیہ ؑ ۔ فا طمہ کبری ؑ ۔ فا طمہ صغر یٰ ؑ ۔ ازا نجملہ قاسم و عبد اللہ و عمر یہ تین بیٹے اپنے عم بز رگوار حضرت امام حسین کے ہمراہ مد ینہ منو رہ سے مکہ معظمہ کے سفر کے واسطے روانہ ہوا تھا۔ راستے کے درمیان ابو احرام کی منزل میں فوت ہوا۔ اور اولاد حسین لقب بہ حسین اثرم اور عمر ابن حسن علیہ السلام کے تھوڑے ہی زمانے میں قطع ہوگئی ۔ کوئی بھی با قی نہ رہا اور چار لڑکے بچپن میں فوت ہوئے ا۔اور دیگر جو ان ہر کر لا ولد فوت ہوئے۔ بعض لکھتے ہیں۔ کہ حضرت امام حسین ؑ نے اون کے حق میں بد دعا کی تھی۔ کہ انہون نے کر بلا ئے معلے میں جانسیے انکا رکر دیا تھا۔ عر ض تمام ف زند و نسے دو لڑکو ں کی اولا د یعنی زید بد حسن ؑ اور حسن بنب لقب مشنیٰ سے با قی ہے۔ چنا نچہ ان کی اولاد کا حال ذیل میں در ج ہیں۔ 

در بیان جناب سید ۃ النساء الفا طمۃ الز ہرا

خا تون جنت علہیا الصلو اۃ
و السلام
اسمائے مبا رک حضرت فا طمہ سیدہ النساء علہیا السلام
آپ کا اسم مبا رک فا طمہ ہے۔ متق از فطام یعنی جد ا کرنا اسرا ر عیبی ہے۔ دوم زہرا جو بمعنی در خشندہ ہے آپ کا چہرہ یہ سبب انوار سعاد ات کے شمس و قمر کی مانند روشن تھا۔ دیگر زہر ا کے معنی حیض و نفا س و دیگر آلو د گئے نسواں سے پاک ہونیکے ہیں۔ 
حلیہ مبارک
بتول کے معنی بھی حیض و نفا س سے پاکیزہ ہو چکے ہیں۔ اور بتول غدرا بمعنی صاحب اولاد کے ہیں یعنی چا ر لڑکیوں میں سے یہی صاحب اولاد تھیں۔ عژا با معنی ہرر خسارہ یعنی ہر دور خسارہ سے نشان اولاد درخشندہ تھے چنانچہ حضرت حسن ؑ و حسین ؑ دگو شوارہ کی مانند ہے اپ کے اس مائے مبارک فاتمہ اور ضہرا کے علاوہ اور بھی ہے خیرۃ النساء ؑ سید ا نسا رضیہؑ ،مرتضہ ؑ سیدہ النساء ؑ ، رضیہ ، مرتٖہ ؑ ، سیدہ ؑ ، مورثہ ؑ ، طاہرہ ؑ ، زکیہ ؑ ، میمونہؑ ، معصومہ ؑ ، ،خدومہؑ ، بضفہ النبی ؑ ، درہ البضاؑ ، صادفی عذراؑ بنت ۔ ا؛بؒ تار۔ ش،ہ،پ روز کدْ اس لء ع؛اوپ اور بھی آپکے اسمائے مبارک ہیں ۔ یہاں مشہور مشہور لکھے گئے ہیں ۔ 

القاب مبارک 
ام المومنین ؑ ، ام لائمہ ؑ ، ام المعصومین ؑ ، ام الحسنؑ ، ام الحسین ، ام الفجسرہؑ ، ام الفنائلؑ ، ام الاغیارؑ ، ام الازارؑ ، ام المعلوم ؑ اور بعض کتابوں میں ام الکتاب بھی آپکی کنیت بھی ہے ۔
والدین 
آپکے والد ماجد کا نام محبوب خدا محمدمصطفی (روخی فداہ) تھا آپکی والدہ ماجدہ خدیجہ الکبریٰ بنت خویلد بن اسد بنبن عبدلقرابن قضیٰ بن کلاب ہیں روایت میں ہے کہ بہشت میں تمام عورتوں سے چار عورتیں بہتر ہیں اول خدیجہ بنت خویلد ۔ فاطمہ بنت حضرت سرور کائنات محمد مصطفی۔ مریم بنت عمران مادر حضرت عیسیٰ ؑ والسلام ۔ آسیدہ زوجہ خر عوف ۔ 

مدت حمل 
جب حضرت خاتون جنت فاطمہ الزہرا سیدہ النساء کے ظہور کا وقت قریب ہوا ۔ تو حضرت جبریل ؑ نے جناب محمد مصطفی کیخدمت مبارک میں پیغام باری تعالیٰ عزاسمہ و گزارش کیا کہ خدا ئے جل شانہ کا حکم ہے کہ آپ چالیس روز تک طعام دنیوی ترک فرمائیں اور امور دنیا سے دست بردار رہیں ۔ ان کو مالم میں یعنی روزہ رکھیں اور رات کو عبادت میں مشغول رہیں تبگ حضرت ؑ نے جناب باری تعالیٰ کے حکم کی تعمیل فرمائی اور ان چالیس روزوں میں بوقت افطار صرف رطب اور الخبیر بہشتی جو حضرت جبریل ؑ تازہ لایا کرتے تھے ۔ نازل فرماتے رہے۔ اور لطفہ ، مبارک صلب رسول خدا میں طعام بہشت سے پہنچا ۔ چالیسویں رات کو بعد نماز عشا حضرت خدیجہ الکبریٰ سے مقارب ہوئے اور اسی شب میں حمل قرار پایا اور نو ماہ کے بعد آپکی پیدائش ہوئی ۔ اور حضرت خدیجہ روایت فرماتی ہیں کہ اول تین ماہ میں قبل از پیدائش کم میں باتیں کرتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں ۔ اور مجھکو تسلی بھی دیا کرتی تھیں اور کبھی کبھی قرآن شریف کی تلاوت بھی فرمایا کرتی تھیں ۔ اور مشرق و مغرب سے زمین و آسمان کے پردے میری نظر سے اُٹھائے گے اور وضع حمل کے بعد وہ تمام حالتیں ضائع ہوگئیں ۔
سن ولادت 
بیسویں تاریخ ماہ جمادی الثانی سال ۴۵ عام الفیل سال پنجم بعثت پیدا ہوئیں ۔ بعض کا قول ہے کہ چار سال دو ماہ تین روز اور بعض لکھتے ہیں کہ دوسرا سال تھا ۔ غرض اُسوقت شہر یار کا بیٹا یہود ؟؟؟؟ سر حکموت تھا ۔ خاص مکہ معظمہ میں سبحانہ رسول خدا پیدا ہوئیں بعض لکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کا گھر تھا۔ 
روائت ہے کہ جب وضع حمل کا وقت قریب آیا تو قر یش کی عورت کو حضر ت خدیجہ نے طلب فرمایا تو سب نے جوا ب دیا کہ تو نے ہماری اجازت کے بعد ابو طالب کے تییم محمدبن عبد اللہ سے نکاح یکا ہم نہں آینگے یہ جواب سنکر حضر ت خدیجہ مایو س ہوگئیں اسی وقت خدا تعالیٰ کے فرمان سے حضر ت مرتم بنت عمران مادر حضر ت عیسیٰ علیہ اسلام اور آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون مع لملاکہ کثیر و حو ان بہشت خدیجہ الکبری کی خدمت میں بہشی اسبا ب کے ساتھ ماضر ہوئیں جو عورتوں کے متعلق خدمت ہوتی ہے سب کا لائیں 
حال زوجیت حضر ت خاتون جنت ؑ :۔جب سن شریف آپکا دس رس کا ہوا اور حضر ت امر المو مینن علی ؑ مرتضیٰ کی عمر مبارک پچس سال کی تھی ۔تو چو بیس رمضان المبارک کی رات کو ایک سا ل ہجرت سے نکا ح کی 
تقریب پیش آئی ۔بعض لکھتے ہیں کہ پندرھویں رجب المر جب سن مذکور بجطاب حضر ت جبر یل علیہ السلام و شہادت میکا ئیل و قر مائیل اسراجیل و دیگر لمد ئکہ مقر بن بت المعمورمیں بالا نے کرسی تو ر خطبہ و ضیعہ پڑ ھا گیا ۔اور نکاح کا قبالہ ملا ئیکہ کی پہروں کے ساتھ آنحضر ت کی خدمت میں لا یا گیا اور حضر ت نے مسجد مد نیہ منورہ میں کا فرے صحابہ وسا ئر مسلمین حضر ت علی کے ساتھ پا نچسو درھم کا نکاح مقر ر کیا اور و لیمہ عروسی چند صاع نان اور ایک ھو سفند بہ یان کچھ روغن اور کسی قدر فرما کے ساتھ کیا اور چار ہزار آدمیو ں نے کھا یا ۔بہت سے اور کھانا لے گئے ۔آپکی برکت سے ابھی کھانا با قی تھا ۔
تاریخ زفاف 
پہلی تاریخ ماہ ذوالحج بعض کے قول سے چھٹی ماہ ذوالحج کو اسی سال زمان ہوا۔ 
علت وفات :۔ بقول اہل سنت والجما عت باملہ موعودہ بیمار رہ کر وفات پائی ۔ اور بقول اہل تشعیہ حضر ت عمر بن خطاب کے دروازے پر لدت مارنے سے کواڑ کی ضرب آپکے شکم مبارک پر لگی والجاعت کے نزدیک کچھ وقعات نہیں اور بعض علماء نے سنت والجماعت پدر نہ رگوار کی مفارتت کی وجہ بتائے ہیں ۔ثاتواں ہوتے ہوتے وفات پائی ۔موادی عبدالعز یز صاحب مدث دہلوی اپنی کتاب ستر الشہادتین میں روایا ت صحاح ستہ سے لکھتے ہیں۔کہ حضر ت محسن علیہ السلام پید ائش کے بعد تین ماہ زندہ رہ کر یہ تقد یر ایزدی اس جہان فافی سے خصت ہوئے ۔حضرت فاطمہ کی وفات دوشنبہ کے دن بوقت عصر بتاریخ ۳ ماہ رمضان المبارک بعض کے قول کے بموجب پچیس ۲۵ ماہ رجب المرجب اور بقوے ۳ ماہ جمادی الشانی ہجرت کے گیارھویں سال وقوع میں آئی ۔اور اسی شب تن تنہا بنفس نفیس حضرت امیر المومینن علی کرم اللہ وجہ بعم خود عباس ؑ وفضل بن عباس نے حضرت فاطمہ کو دجن کیا ۔کوئی بھی صحابہ میں سے جنازہ پر نہں او ر کسی کو بھی خبر نہ ہوئی ۔اور غالہ آپکی اسمانبت عمیس تھی اور بعض کے قو ل سے پتہ چلتا ہے کہ روح پاک کے قبض ہونے سے پہلے غسل کرلیا تھا ۔وہی کتضی ہوا ۔وللہ عالم باالصواب ۔
مزار مبارک :۔ 
آپکا مزار مبارک حضر ت رسول فدا علیہ لصلواۃ والسلام کے ممبر کے مابین واقع ہوا بعضوں کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ بمقام جنت بقیع میں اور بعضوں کے خیال میں اپنے گھر میں ہی جس جگہ آپکا وصال ہوا تھا ۔مزار ہے ۔حضر ت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں جب وصیت دفن کیا واللہ عالم بالعی
تعداد عمر مبارک :۔ 
اٹھارہ برس ایک ماہ دس روز آپ ؑ کی عمر تھی ۔ آٹھ برس قبل از ہجر ت اور دس برس ایک ماہ دس روز بعد از ہجرت زندہ رہیں ۔ صحیح روائیت یہ ہے کہ آپکی عمر سترہ ۱۷ روز کم اٹھارہ برس کی تھی سات برس نو ۹ مہینے قبل از ہجرت مکہ مفطمہ میں اور نو برس گیارہ ماہ ستائیس روز مدنیہ میں اور دو ماہ پانچ روز بعد وفات حضر ت رسول مقبول ملعم زندہ ہین ۔ بعض لکھتے ہیں کہ حضر ت کے انتقال کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور حضر ت امام حسن کی پید ائش کے وقت آپکا سن شریف پندرہ برس تھا اور حضر ت مخدوم جہانیاں کی روائیت سے گیارہ برس کی عمر تھی کہ حضر ت امام حسن پیداہوئے ۔ 

تعدا د اولا د حضرت فا طمہ خا تون جنت 
حضرت اما م حسنؑ شبر لقب حضرت امام حسینؑ شبیر لقب اور حضرت محسن ؑ شبر لقب ۔ زینت کبرا ؑ ۔ زینت صغر ا ؑ یعنی ام کلثوم اخلاق داو صاف ۔ جناب حسنین اظہر من الشمس ہیں اور حضرت زنیت کریٰ بھی نہایت زیرک اور دانا تھیں جب کہ دربار یزید میں دیری سے گفتگو فر مائی کہ اہل در بار دنگ رہ گئے فضا حت و بلا غت میں بے نظیر تھیں۔ حا جت تحریر نہیں اور حضرت زنیت صغرا ؑ یعنی ام کلثوم بہت ہی سادہ طبیعت تھیں۔ اکثر کتب سے واضع ہے کہ حضرت خاتون جنت سید ہ النساء کی اولاد انہی دو شہز ادوں یعنی حضرت امام حسن و امام حسین سے باقی ہے اور تا قیامت منقطع نہیں ہوگی۔ خواہ یز ید جیسے لا کھون کیوں نہ پید ا ہو جائیں یہ خد ا کا فضل اور احسان ہے اکثر اولیا ء آئمہ و پیشوا ۔ غو ث قطب ۔ ابدال ، اوتا د انہی صاحبزاد گان کی اولاد سے ہوئے ہیں۔ اور ہوتے رہینگے اب دو شہز ادوں کا حال اور انکی اولا د کا حال علیحدہ علیحدہ لکھا جائیگا۔

دربیان امیر المومنین حضرت حیدر کرار ؑ غیر فر ار صاحب ذولفقار

علیؑ مر تضیٰ شیر خدا
علیہ الصلواۃ
والسلام
اسم مبار ک آپ کے ایک ہزار ہیں۔ مگر سب سے زیادہ مشہو ر علیؓ کے نام سے ہیں۔ 
القاب مبارک: مر تضیٰ ، حید ر ، صفدر، قدر ت اللہ، حبیب اللہ، اسد اللہ، سیف اللہ، حجت اللہ نو ر اللہ، طہٰ، یٰسین، قمر، زیتون، ایلیا، امر المومنین، امام المتقین ، اعسو ب الدین، قائد الغر المجالین، ذوالقرنین، والد البسطین، غالب، کر ار، غیر فر ار ، جر ار، سر الا سرار، مطلوب، کل مطلوب، مظہر العجائب مظہر النعر ائب ، صدیق الاکبر، فار ق اعظم، حا صف النعل، کشا ف الکر وب ، اخ رسول ، قر ن من الحدید روج بتول، لسان الصد ق، امام الاول، ہا دی، داعی، شاہد، کتاب المبین، مقیم الحجر ، قسیم الجنت والنا ر قاتل الکفار، وصی الاولیا، قاسم الجبارین، زین المجا ہدین، صر اۃ المستقیم، عماد الا تقیا ، نا صیح مائے مجتہد ، مصباح ایضا، مخلص الصفے، سا قی الکو ثر ، صاحب اللوا ، صاحب الحوض ، غیاث المکربین، بین المشکلات، صاحب ید بیضا، وغیرہ القاب ہیں۔ مختصر لکھے گئے ہیں۔ تفصیل کی گنجائش نہیں۔ انہی القاب سے نام بھی مشہو ر ہیں۔ 
کنیت: ابو الحسن، ابوا لحسین، ایو تراب، ابوالخاخقین۔ 
مد ت حمل: نو ماہ نو روز کے بعد آپکی پید ائش ہوئی۔ 
تا ریخ ولا دت : بر وائت مشہو ر معلوم ہوتا ہے۔ کہ جنابؑ کی پید ائش اٹھا رویں رجب المر جب ۱۰۵۰ ؁ء سکندری مطا بق ۲۸ ؁ عام الفیل ہوئی تھی ۔ نبوت سے دس بر س چھ روز پہلے لطا لع مر یخ کہ شجا عت کی علا مت ہے۔ کعبہ شر یف میں پید ائش ہوئی۔ ایسا رتبہ اول اور آخر کسی کو نہیں ملا۔
ہے شایان تجھے کو ہی تاج امامت ہے زیبا تجھے ہی قبائے ولا ئت
تیرے فیض سے ہی ہے نام سخا وت بھلا کسکی بڑھکر ہے تجھ سے شرا فت 
کسے را میسر نش د ایں سعا دت 
بکعبہ ولا دت بہ مسجد تشہا دت
تیرے دم سے روشن ہے مر عبا دت تیرے نام سے ہی ہے نام شجا عت 
رواں تیرے دم سے ہے آب کر امت ترے دم سے جاری فیص سعا دت 
کسے را میسر نش ایں سعا دت
بکعبہ ولا دت بہ مسجد شھا دت 
حضرت عیٰسی علیہ السلام کی والدہ ما جدہ حضرت مر یم علیہ السلام کو جو مسجد اقصیٰ میں سکونت فر مایا کر تی تھیں۔ بو قت وضع حمل وہاں سے چلے جا نے کا حکم صادر ہوا۔ 
سن شر یف: تر یسٹھ بر س دو ماہ سات روز آپکی عمر تھی۔ تینتس ۳۳ برس سات ماہ سات روز جناب رسالت مآب حضرت رسالت پنا ہ محمد مصطفی ؐ کی خد مت با بر کت رہے دس بر س چو دہ روز نبو ت سے پہلے اور بائیس بر س ساتھ ما ہ تین روز بعثت کے بعد جناب صلعم کی خد مات فیص در جات سے مستفیض ہوتے رہے۔ 
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی خلا فت میں دو بر س تین مہینے سات روز اور حضرت عمر خطابؓ کی خلا فت میں تقریباً ۱۳ برس اور حضرت عثمان بن عفا نؓ کے شہید ہونیکے بعد چار بر س بائیس روز خو د بد ولت ؑ خلافت ظاہری سے مشر ف ہوئے ۔ تہوار اور شجا عت و سخا وت جناب کا ضرب المثل اور زبان زد عوام و خواص ہے۔ تحریر و تقریر کے احاط سے با ہر ہے۔ 
حلیہ مبارک: میانہ قامت ، روئے مد و ر مانند لیلۃ البدر ، گو ش سرخ مانند طبق لعل، ابر وئے کشا دہ نز اکت
میں مانند ہلال ، (بال)موئے گنجان سر خ، گردن بلند و در از ، رنگت میں مانند نقرہ، شانے چوڑے، با زو سخت، اعضا قوی و تنومند، عظیم البطن، وسینہ قوی کشا دہ ، جناب کسی لڑائی میں مضطر اور بیقر ار نہیں ہوتے تھے۔ حملہ کے وقت چہرہ آپکا سر خ ہو جا تا تھا۔ فتو حات آپکی بے شمار ہیں۔ تلوار یں آپ کی د وتھیں۔ ایک قمقام ، دوسری ذوالفقار ، اور گھوڑے کانام دلدل تھا۔ 
اسمائے از وج آنحضرت امیر المو منین کر م الد وجہ : فا طمہؑ بنت محمد ؐ ، خولہ بنت جعفر بن قیس طنفہ ، امام بنت ابو العا ص، ام حبیبہ بنت ربیعہ لیلی بنت مسعود اسما بنت عمیس ، ام مسعود بنت عر وہ بن مسعود، ام النبین بنت حرام بن ربیعہ ، حجا رہ بنت امراۃ القید اکلامی، ام البشارۃ بنت حرام بن خالد بن ربیعہ الوحید۔ 
یادر رہے کہ جب تک حضر ت فاطمہ بنت رسول اللہ علیہا الصلواۃ وا لسلام زندہ ہیں۔ کوئی عورت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ الصلواۃ والسلام کے نکاح میں نہیں آئی۔ اور حضر ت خا تون جنتؑ کی اولا د یہ ہے ۔ حسنؑ ، حسین ؑ ، محسنؑ ، زینت الکبریٰؑ ، زینت صغرا ؑ ، ام کلثوم ، بعد وفا ت حضرت سید ہ النساء کے ہیں عور تیں نکاح میں ائیں چنانچہ۔ 
محمد حنیفہ بطن خولہ بنت جعفر سے اور رقیہ و عمر ہر دو بطن ام حبیبہ سے اور عباس غازی کہ نہایت حسن و جمال رکھتا تھا۔ اور انکو ماہِ شیم کہتے تھے۔ وہ بھی ام حبیبہ کے بطن سے تھے اور ابو بکر ، عبدا للہ، اصغر بطن لیلیٰ بنت مسعود سے۔ اس یسحٰی و عون بطن اسما بنت عمیس سے اور اسما بنت عمیس سے پہلے جعفر طیار کی زوجہ تھی۔ ان کے بیٹے ، عبداللہ اور محمد ؐ ہیں۔ جنگ مو تہ میں جعفر طیار کی شہا دت کے بعد اسما کو ابوبکرؓ اپنے نکاح میں لائے۔ ان کا لڑکا محمدؐ بن ابو بکر ہے۔ حضر ت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کی زوجہ ہوئیں محمد بن ابوبکر دوسال کی عمرمیںآیا تھا۔ چنانچہ یحٰی و عون و محمد بن ابوبکر بر ادارن ما دری ہیں۔ اور بعض شیعہ یہ بھی کہتے ہین کہ ام کلثوم حضر ت ابو بکرکی لڑکی تھی۔ حضرت ابو بکر کی وفا ت کے بعد ام کلثوم حضرت علی ؑ کے گھر میں آئی۔ اور اسی کی نکا ح حضر ت علیؑ سے کیا گیا۔ 
ام ہانی ۔ ام کرام۔ حعضر، ام سلمہ ، میمونہ ، خد یجہ ، صغرا ، فا طمہ ،عبد اللہ، عبدالد ا و سط ، محمد اوسط محمد اصغر، طلحہ و اوف ، وزید ، ام کلثوم، صغرا رملہ ، رملہ صغرا ، ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ ماں تھی۔ ام الحسن ، رملہ یہ ہر دو علیحدہ سیھ ہیں۔ اور محمد اکبر المشہور محمد حنفیہ کنیت او القاسم کو فر یق المختاریہ جو شیعہ میں سے ہے۔ امام جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد محمد زین العابدین امام ہیں۔ 
والدین: آپ کے والد کا نام عمر کنیت ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد منا ف تھا اور آپکی والدہ ما جدہ فا طمہ بنت اس بن ہاشم بن عبد منا ف تھیں اور یہ فا طمہ ر سول خد اصلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی مر یبہ تھیں۔ 
سن شہا دت : ۱۹ ماہ رمضان المبار ک ۴ ھجری نبوی المقدس ، ۹۳ ام الفیل مطابق ۸۳ بعثت مسجد کو فہ میں عبدالرحمن ابن لجم مر ادی کی تلو ار کی ضر ب سے آپ زخمی ہوئے اور اکیسویں رمضان المبار ک کو یعنی تیسرے روز وفات پائی۔ اور درجہ شہادت سے ممتاز و مشر ف ہوئے انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ حضرت حسین ؑ و دیگر فر زند ان ؑ نے غسل دیا اور نعش مبارک کو کفن سے ڈھانپ کر تخت پر رکھ دیا۔ نعش مبا رک نظر سے غائب ہوگئی۔ عر صہ قلیل کے بعد ظاہر ہوئی۔ کہتے ہیں کہ فر شتے آسمان پر لے گئے تھے اور بعض کا قول ہے کہ حضرت حسین ؑ نے وصیت کے بمو جب تخت کو پکڑا۔ تخت خو د بخود روانہ ہوا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ و میکائیل ؑ اٹھا کر لے گئے۔ اس روز نعش مبار ک سے بہت عجائب و غرائب باتیں ظہور میں آئیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تخت کو لے جاتے تھے کہ ایک شخص نقاب پوش آیا اور شتر کو جو نعشن مبارک کا حامل تھا مہار سے پکڑ ا لیا گیا۔ آخر معلوم ہو اکہ عین حضرت علیؑ کی شکل کا کوئی آدمی تھا۔ جب مقام مد فون پر پہنچا تو تخت خو د بخو د زمین پر نا زل ہو ااسی جگہ مد فون ہوئے چنا نچہ قبر مبارک خلیفہ ہارون رشید عباسی کے زمانے تک مخفی رہی اتفاق سے خلیفہ ہا رون رشید صحرا میں شکار کھیلتا ہوا اسی میدا ن میں جا نکلا تو ایک ہرن دیکھا اور چاہا کہ اسے شاکر کر ے چنا نچہ ہر ن بھا گتا ہو اپہاڑ کے ایک ٹیلہ پر جا کر پناہ گزین ہوا آخر بعد جست وجو کے معلوم ہوا کہ آپکی قبر مبارک اسی جگہ
ہے۔ اور اسی مقام کا نام نجف اشرف ہے۔ اور حضرت نو ح علی نبینا ؑ اور تابوت حضر ت آدم صیفی اللہ و علی بینا علیہ الصلواہ والسلام اسی جگہ مد فون ہیں۔ واللہ عالم با لصواب۔ 
تعدا د اولاد آنحضرت علیہ الصلواۃ والسلام۔
حضرت کی اولاد میں بہت اختلاف ہے بروایت متحبرہ ومشہورا ارہ بیٹے انیس بیٹیاں تھیں ذیل کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے۔حسنؑ ۔ حسینؑ ۔ محسنؑ ۔ محمداکبرؑ ۔المشہود۔محمدحنیفہؑ ۔ عباسؑ ۔عثمانؑ ۔جعفرؑ ۔یحیؑ ٰ۔فضل ؑ ۔عونؑ ۔ عمرؑ ۔محمداوسطؑ ۔محمداصغرؑ ۔ابوبکرؑ ۔طلحہؑ ۔زیدؑ عوفؑ ۔ان میں سے آٹھ پسران بہمرائے حضرت امام حسینؑ کربلا معلی میں شہید ہوے یعنی عبد البد ین علی ؑ ، عبا س ؑ ، عثمان ؑ ، جعفر ؑ فض ؑ ، عون ؑ ، ابوبکر ؑ ، صر ف پانچ لڑ کوں سے ؟؟؟؟؟؟؟؟ با قی ہے۔ حضر ت امام حسین ؑ ، امام حسین ؑ ۔، حضرت عباس ؑ ، حضرت محمد حنیفہ ؑ ، حضرت عمر ؑ ، چنا نچہ ذکر اولاد حسین جو سیط رسول مقبل تھی ،۔ آئند ہ لکھا جائیگا ۔ سوائے ان پانچ لڑکو ں کے اور سب اولا د فو ت ہوئے اب لڑکیوں کے نام ذیل کی تفصیل سے معلوم ہو تے ہیں۔ 
اسماء دختران : زنیت اکبرؑ ، زینت اصغر ؑ ، ام کلثومؑ ، رقیہ ؑ ، ام ہانی ؑ ، میمو نہ ؑ ، ام الحسن ؑ ، صغرا فاطمہ ؑ ، آمنہ ؑ ، خد یجہ ؑ ، ام کرام ؑ ، ام سلمیٰ ، حمائیہ ؑ ، فضیہٰ ، ام جعفر خد یجہ صغرا ؑ ، مر یم ؑ ، ارملہ صغر ا ؑ ۔ 
آنحضر ت کرم اللہ وجہ کے فضائل سخا وت و کرامت وشجا عت احاطہ بیان سے با ہر ہیں۔ اس مختصر کا پی میں اسکی گنجائش نہیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ حضرت امام حسین کی اولاد کا حال لکھوں جو اہل سادات سے خطاب کئے جاتے ہیں اسلئے اسی طرف متو جہ ہو تا ہوں۔ خد اواند کریم تو فیق بخشے ۱۳ شوال ۱۳۳۳ ؁ء ھجری نبوی۔ 


Sunday, 25 December 2011

نسب نامہء حضر ت محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم

حضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم بن وسلم بن عبد اللہ ( عبد اللہ حسن و جمال میں یو سف لا ثانی تھا۔ چنانکہ حضرت آمنہؑ سے شب ز فا ف میں عرب کی تین سو عو رتیں رشک سے ہلاک ہوگئیں)۔ بن عبد المطلب (صلی نام دشیبہ تھا ۔ آپ کے چچا مطلب بن منا ف نے پر ورش کیا تھا ۔ اس لیے ان کا نام عبد المطلب مشہور ہو ا ۔ دس پسر اور چھ دختر تھیں۔ 
نام پسراں حارث ، عباس ، حمز ہ ، عبد العزیٰ ، خز ائمہ مقم، زیبر ، ابو لہب ، عبد اللہ۔ 
نام دختر اں، صفیہ، ام حلیمہ، بیضاء ، عا تکہ ، ذمہ، برہ ) 
بن ہاشم ان کی بیٹاں (فا طمہ ما در علی بنت اسد اور آمنہ مادر محمد بنت و ھب بن ہاشم تھیں۔ بن عبد المنا ف (ور قہ بن نوفل بن حا رث بن عبد العزی بن عبد لشمس ان کی نسل میں سے تھا)۔ بن قصی (ان کے دو بیٹے ابو جہل بن ہشام بن حارث بن عبد العزی اور زبیر بن العوام بن خو یلد بن اسد تھے) بن کلا ب (ان کی ماں کا نام مسمات ماریہ بنت یقین تھا۔ بن کعب ان کی ما ں کا نام مسمات ماریہ بنت یقین تھا۔ بن لوی اس کی ماں کا نام سلمٰ بنت عمر ربیعہ بن خز اعیہ تھا۔ بن غلب اس کی ماں کا نام لیلیٰ بنت سعدبن نذیل بن مد رک بن الیاس تھا۔ بن فہر اس کی ماں کا نام عا تکہ بنت عد وبن قیس الضر مہ تھا۔ بن مالک اس کی ماں کا نام جنب بنت الحارث بن حجا ضی الحیر سمی تھا ۔ بن نصر ملقب نقر س ہے اس کی ماں کی کا نام بتر ہ بنت مر و ہ بن آو طالچہ بن الیاس بن مضر تھا۔ بن کنانہ اس کی ماں کا نام ہند بنت قیس بن عمر بن عید ن بن مضر بن نضا ر تھا۔ عامر بن ثعلبہ بن مر یح بن مر ہ بن کنانہ اور عبد منا ف بن کنانہ اور عامر بن ثعلبہ بن کنانہ ان کی نسل میں سے تھا۔ بن خز یمہ اس کی ماں کا نام سلمیٰ بنت اسد بن ربیعہ بن فزاربن معذ تھا۔ بن مد رکتہ اس کی امں کا نام خذ ف بن حار چ تھا ۔ بعض روایات میں اس کی ماں کا نام خذف بن حار ث تھا۔ بعض روایات میں اس کی ماں کا نام امہ ایار بن مقد و صاعہ بن معذ فیض بن معذ تھا۔ بن الیاس (اخاطب بن عمر بن اخمیہ ان کی نسل میں سے تھا۔ بن مضر بن نز ار اس کی مان کا نام معا ذ بنت خو یلی بنت عد ی بن در یں خبر ہم تھا۔ بن معد اس کی ماں کانام خز یمہ نام بر وئت خنف بنت ایاز ۔ بن عدنان اس کی ماں کا نام ملک بن یلیا بنت العزیٰ بن متحطا ن تھا۔ بن ادا (ما در ادا کا نام جبیلہ بنت قحطان تھا۔ ادا بیس زبانوں مین گفتگو کر سکتا تھا۔ اور خط و کتابت کر سکاتھا۔ بن اود (مادر ش سلمیٰ بنت حار ث بن ملک تھی۔ یہ اس قدر بلند آواز تھا کہ اسی کی آواز بار ہ میل کے فا صلے سے سنی جاتی تھی۔ بن ہمسخ بعض نسبخوں میں اسے ھو یسلکھا ہے۔ اس کی ماں کانام حار ثہ بنت مر اد بن خمیر تھا۔ بن سلامں بن ثا بت ان کی والد ہ کا نام مسما ت سعیدہ تھا۔ بن حمل اس کی ماں کا نام ع اجزہ بنت زنزل بن عامر بن لعز ب بن قحطان تھا۔ بن فیتد ار اس کی ماں کا نام ہالہ بنت حا رث تھا ۔ بن اسمعیلؑ ان کی ما ں کا نام ہا جرہ مشہور ہے۔ ععیب البنی بن نور بن عتیق بن مد ائن بن اسمٰعیل ان کی نسل سے تیھا۔ بن ابر اہی ۔ ایوب ؑ نبی بن مو ج بن زار خ بن عا دل بن عض وبن اسحاق ان کی نسل سے تھے۔ بن تا رخ در خیل بنت لبان ان ی مان کانام تھا۔ ھو تاج اب ابر اہیم سے مشہور ہیں۔ بن نا خور العم بن نعمان بن با غور بن لیان بن بتعان انلی نسل میں سے تھا۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟ شا رخ بعض نسخوں میں شر وع اور بعض میں شا رخ اور بعض میں سا روغ اور بعض میں اسر غ لکھا ہے۔ حضرت ھو د علیہ السلام انکی نس میں سے تھے۔ بن ؟؟؟؟؟؟؟ بعض نسخوں میں ارغب و یز اغ لکھا ہے۔ بن قانع بلبان بن مکان و حضرت خضر علیہ السلام ان کی نسل میں سے تھے بن عا بر ( دوہزار تین سوا نتا لیس بر س حضرت آدم سے غا بر تک ہوئے ہیں۔ بن شا لخ ہو د بن عبد اللہ بن ریا خ بن خلو د بن غو ص بن ارم بن صالح بن عبید بن اصف بن ہاشم بن عبید بن حار ث بن سام انکی نسل میں سے تھے بن ار ثمہ نفنر ان بن ھا م بن ولد بن تفیط بن وہر بن لفا ط بن فام بن بہمل بن مہند بن ولد بن فر ط ان کی نسل سے تھے۔ بن سا م حضرت صالحالبنی بن عبید بن صفا بن ما سخ بن جد مد بن ثمو د بن خا شیرین ارم انکی نسل سے ہوئے بن نو ح حضرت نو ح علیہ السلام کی ماں کا نام قینو س بنت کا مل بن عصر ائیل بن کیا ن بن اخنو ع تھا۔ عمر ۹۸۵ سال نو سو پچا سی سال بعض روائتوں میں ایک ہز اور بعض میں تین ہز ار پا نچ سو بتیس لکھی ہے۔ بن مالک اسکی عمر تین سو پچا س سال تھی۔ اسکی ماں کانام عر یا لکھا ہے۔ بن مت وشلح عمر ننو بر س تھی سات سو بر س میں لامک پید اہوا۔ اسکی زوجہ کا نام غر یا تھا۔ بن اخنوع حضرت ادر یس ؑ نبی انکی نسل میں سے تھے اسکی ماں کا نام بر ودہ تھا۔ بن سا دہ بعض نسخو ں میں ما در اور بعض میں یا رد اور بعض میں تا ر دً باننوت لکھا ہے۔ اسکی ماں کا نام بر ود ہ تھا۔ بن ھلائیل بعض میں مھلائیل بن مغر ب بن قینان لکھا ہے۔ بنقینان اسکی عمر ۷۰ سال تھھی بن انو ش اسکی عمر ایک سو پچانویں بر س تھی بن شیث انکی عمر نو سو بار ہ بر س تھی انکی زوجہ کا نام فخضا ئلہ از قسم حور تھھی بعض کے نز دیک جن کی قسم سے تھی ہابیل کی آل پر تینتس صحیفے نا زل ہوئیتھے بن آدم صفے اللہ علیہ السلام ۔ حضر ت آدم علیہ السلام کی زوجہ کا نام حواتھا۔ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدر ت کا ملہ سے حضرت آدم کے پہلو ئے چپ سے پید اکیا ۔

تنبہ: حضرت ابراہیم کے تیرہ بیٹے تھے۔ مد ین ؔ ،مر ماؔ ، زرید ؔ ، قطور ؔ ، اردؔ ، قبا دؔ ، تلؔ ، طنا ؔ ، اسحاقؔ ، ثابتؔ ، سمعی ؔ ، قباؔ ۔ 
اطلاع: پسر ان حضرت یعقوب علیہ السلام بن اسحاق ؑ : روئیل ؔ ، شمعونؔ ، مخر ن ؔ ، بد دیؔ ، خر مانؔ ، یو سفؔ ، یہود ا، اشر فناؔ ، بعبا دوان ؔ بن یامین ، عا دینؔ ، خو ص بن ارمؔ ، بن حارثؔ ،بن سامؔ ، بن نوحؔ علیہ السلام ۔ 
آگاہی: پسران عا د ؑ : امتہؔ ، ثمو د ؔ ، شدا د ؔ ، شذید ؔ ، لممؔ ، یا فث۔ 
یا د رہے کہ! حضرت نو ح علیہ السلام ستر ہزار زبان میں گفتگو کر سکتے تھے۔ ان میں ۱۹ سامؔ ؔ کو لکھا ئیں ۔ اور ۱۶ حامؔ کو سکھا ئیں۔ اور سینتیس ۳۷ زبانیں یا فث کو سکھائیں۔ 
عرب ، روم، فا رس، میں اولا د کی سام ؔ ہے۔ اور حبش ، سندھ ، ہند میں حامؔ کی اولاد اور ؟؟؟؟؟؟؟؟ ، ؟؟؟؟؟ یا فث کی اولاد ہے۔ 
واضح ہو: کہ پسران حضرت آدم صیغی اللہ علیہ السلام مند ر جہ ذیل تھے ۔ عبد الحار ثؔ ، عبد المغیث ؔ ، ؟؟؟؟؟؟، ہابیلؔ ، ابادؔ ، بز ر ؔ ، خز ہمس ؔ ، قینؔ ، قسورؔ ، بیانؔ ، امامی ؔ ، لسالعؔ ، فر ور یہؔ گہو مر ثؔ ، مستندؔ ، بار نؔ ، اسو دؔ ، مو ج، توبہؔ ، غثافؔ ، کو د ؔ ، شیث، جہان۔ 

معراج آنحضرت ابی و آمی خدا

مشہور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ماہ رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ بروز دوشنبہ ؟؟؟؟ ہجرت کے

دو برس بعد آنتہائی کے گھر سے آپ کو معراج ہوا ۔ 


تاریخ وفات 

ستائیسویں مضر المنظفر ۶۳۰ ؁ عام الفیل یا بعثت کے تیسویں برس ہجرت کے دسویں سال بروز دوشنبہ جناب سرور کائناب نے انتقال فرمایا ۔ لیکن بعضون کو اس میں اختلاف ہے ۔ بعض پہلی سے بارہویں تک اختلاف کرتے ہیں مگر تاریخ اول زیادہ قدین صحت ہے ۔ 



علت و فات 

بعارضہ تب و تیز لعبارضہ درد دل کہ بنرغالہ کے زہر آلود گوشت کے کھانے کے باعث جوا یک یہودیوں نے ضیافت میں کھلا دیا تھا وفات پاکر شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ 



مدفن مبارک 

حضرت عائشہ صدقہ ؓ کے حجرہ میں جو مسجد کے پہلو س تھا مدفن قرار پایا ۔ اصل میں یہ وہی جگہ ہے جہاں رسالت مآب نے پہلے روز قدم رکھا تھا اور آپ نے راحت فرمائی تھی ۔ حضرت سے پہلے یہ جگہ ابو ایب انصاری کے پاس تھی اور آپ نے خرید کر لی تھی ۔ 



سن مبارک 

جناب رسول مقبول باسٹھ برس گیارہ ماہ بارہ روز اس دنیا و فانی میں رہ کر رایئے ملک بقا ہوئے ۔ انا اللہ وانا الیہ 
راجعون ۔ 

مدت نبوت پچیس سال سات ماہ ایک روز یا تین روز فرض نبوت سے خلافت کو ستصیض فراتے رہے ۔ بارہ برس گیارہ روز مکہ معظمہ میں تبلیغ رسالت میں مشغول رہے اور مکہ معظمہ سے ہجرت کے بعد تین روز تک بہ ہمرائیے حضرت ابو بکر صدیقؓ غار میں رہے اور نو روز مدینہ منورہ کے راستے میں گزارے اور نو سال گیارہ مہینے سولہ روز مدینہ منورہ میں رہے اور بعض مدت نبوت کو تئس برس سے چودہ روز کم شمار کرتے ہیں واللہ عالم با الصواب ۔ 

اسمائے ازواج انحضرت
چہاردہ ازواج مدخولہ و آٹھ وغیر مدخد تھیں آٹھ کو قبل از و قول طلاق دی گئی تھیں ۔ ۔ چہاردہ مدخولہ ہ ہیں نمبر ۱ خدیجہؓ خو بلد بن اسد بن عبدلتبری بن قضابن کلاب ۔ نمبر ۲۔ عائشہ بن ابوبکر ڈدیق یرغا نمبر ۳۔حفصیہؓ بنت عمر خطابؓ ۔ نمبر ۴۔ زینب بنت خزیمہ بن الحارث ۔ نمبر ۵۔ام سلمہ بنت اسیہ غروبی اسکی مادر عاعہ بنت یبد المطالب تھیں ۔ نمبر ۶۔ زینب بنت حجس مادرش ایمند بنت عبدلمطالب ۔ نمبر ۷۔جویزہ بنت الحارث نمبر ۸۔ سو بنت ریمہ بنت حُسن ملا نمبر ۹۔ اُم حبیبہ بنت ابو سفیان بن حرب نمبر ۱۰۔ صفیہ بنت حی الطاب خیربہ نمبر ۱۱۔ میمونہ بنت الحارث الیلافہ نمبر ۱۲۔ ماریہ قبلی جوشاہ اسکا بطور میہ بھتیجی تھیں ۔ نمبر ۱۳۔ ریحانہ از قبیلہ بنی نصر نمبر ۱۴۔ جمیلہ ملک سباسے یہ آئی تھیں ۔ 
آتھ غیر مدخولہ یہ ہیں ۔ نمبر ۱۔ امالیاں بنت طبیان نمبر ۲۔ قبیلہ بنت قیس نمبر ۳ فاطہ ؟؟؟؟ نمبر ۳۔ اسمابنت کنان نمبر ۴۔ ملکیہ بنت لبسیہ نمبر ۵۔ عمرہ بنت لیفہ نمبر ۶۔ لیلیٰ بنت ختم ۔ نمبر ۷۔ شبا کل مد خولہ وغیر مد خولہ ازواج مطہرات بائیں تھیں۔

اولاد آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم
حضرت خد یجتہ الکبریٰ سے قاسم ؑ طیب ؑ ، طا ہر ؑ ۔ ابر اہیم ؑ عبد اللہ ؑ زینت ؑ ،رقیہؑ ، ام کلثوم ؑ ، فا طمۃ الز اہرا علیہا الصلواۃ والسلام یہ سب اوالا د ہوئی اور ایک فر زند ما ریہ قبطی سے ہو ا ۔ بعض کہتے ہیں کہ تین پسر تھے طیب و طاہر لقب عبد اللہ کا ہے یہ سب بیتے قبل نبو ت سے فوت ہوئے ۔ اور ایک بیٹی زینت نبو ت سے پہلے جوابی العا ص کو تزویج کی گئی تھیں۔ اور رقیہ کو عتبہ پسر ابو لہب نے طلا ق دی ۔ پھتر حضر ت عثمان بن عفا نؓ سے نکا ح کیا ۔ اس کے بعد انتقال ہو گیا ۔ اور ام کلثوم کا نکاح عتیق پسر دوم ابو لہب سے کیا اس نے بھی قبل از خو د طلا ق دی ۔ حضر ت نے اس کا بھی نکا ح عثمان بن عفا ن سے کر دیا۔ اور حضر ت خا تون جنت سیدہ النسا ء فا طمہ الز ہرا علیہا الصلو اۃ السلام بمو جب حکم خد واندی حضر ت علی ابن ابی طالب اسد اللہ الغالب علیہ الصلواۃ والسلام کے نکاح میں آئیں۔ اور حضرت جبر ئیل علیہ السلام نے نکاح کا خطبہ بحا ضر ئے فر شتگان زیر در خت طو بیٰ پڑھا اور حوران بہشتی نے طبق یا قوت و ز مر د و مر و ار ید نثا ر کئے ۔ بہت کیف اولا د جناب ر سالتماب محمد مصطفی ؐ یطن حضرت فا طمہؓ سے با قی رہی ۔ اور سب بیٹاں لا و لد فوت ہوئیں۔ زینت اور ام کلثوم جناب خد یجہ

Friday, 23 December 2011

دربیان حبیب خدا ئے الرسالت پناہ شفیع المدنین ورحمۃ العالمین حضرت محمد مصطفےٰ


پیدائش 

عالم ظاہری میں جناب رسالت مآب صلعم کی پیدائش میں ہوئی لیکن اول ماخلق اللہ نوری سے صاف ظاہر ہے کہ سب سے پہلے جناب کا نور پیدا ہوا ۔ چنانچہ زمین آسمان لوح و قلم عرش و کرسی بہشت دورذخ کے پیدا ہونے سے چار لاکھ پچیس ہزرار برس جپہلے خدائے کریم نے اپنے محبوب محمد مصطےٰ ﷺ کا نور پیدا ہوا ۔ 



اسمائے مبارک 

ایک ہزار ایک نام ہیں ۔ مگر عوام الناس میں نوہ دنہ ۹۹ نام مشہور ہیں ۔ اور ان میں سے شیادہ مشہور نام یہ ہیں ۔ 
محمد۔ احمد  ۔ حضور ۔ ماحی ۔ وحید ۔ ی ۔ یٰسین ۔ قندیل ؟؟؟؟
مصطفےٰ ۔ مرتضیٰ۔ نتیٰ ۔ بختیار ۔ رحمت العالمین ۔ امام المتقین ۔ شفیع المرسلین ۔ سید الکوسین ۔ سید التعلین ۔ سید المشرفین ۔ سید المعجرین ۔ کل ایک سو تین القاب ہیں لیکن چند کا ذکر کیا گیا ہے ۔ 

کنیت مبارک 
ابولقاسم ۔ ابوابراہم ۔ ابو القارم ۔ ابو الدمائل ۔ ابو لنصڑ ۔ ابو لنظر ۔ ابو صدق ۔ یہ سبب القدیم فی الحدی یا رواح والمساد مشہور ہیں باقی اختلاف رکھتے ہیں ۔ 

والدین 
عبداللہ بن عبدالمطالب بن ہاشم بن عبدالشاف و والدہ ماجدہ آمنہ بنت وھب بن ہاشم بن عبدلمناف بعض نسخوں میں آمنہ بنت وھب بن عبدالمناف بن ؟؟؟؟ بن کلاب بن مرہ بن کعت مادر مانی اول تو یہ زوجہ ابی لھب دوم علیہمہ سعدیہ بنت عبداللہ بن ابی دویب بن حارث بن جابر بن ؟؟؟؟ بن ناظرہ بن سعد بن بکر ہمشیرہ رضاعئے انحضرت و ہمشیرہ ؟؟؟؟ بک شیر تھی ۔ مسمات ضمرہ نام بتاریخ ماہ جمادی الثانی صلب عبداللہ نے رحم میں آئے سرھویں ماہ ربیع ااالاول کو انحضرت مولود ہوئے ۔ یہ روایات دیگر ؟؟؟؟؟ ماہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔ دو از رحم مذکور رسالت فرمائی ۔ ایک روز کم ؟؟؟؟؟؟ حمل قرار ۔ بروز جمعہ بوقت طلوع آفتاب دنیا میں ظہور ہوا حضرت ابو لبشر آدم صیفی اللہ علیہ السلام کی وفات کے سات ہزار نو سو سال چار ماہ سات روز کے بعد یا اصحاب فیل کے ایک ہزار اکیس برس ایک ماہ چھ روز کے بعد اصحاب فیل کا سال عام الفیل سے یا سن سکندری سے مرتب میں مشہور ہے ۔ یا وقیصرواں بادشاہ کے سن جلوس کے چار برس سات ماہ بعد ظہور ہوا ۔
عقرب منازل عمر سے طالع تھا ۔ زمل آٹھویں درجہ بندی میں شتری مغرب مٰں درج حمل میں آفتاب شرف میں زہرہ ، عطارد ، قوت میں قمر اول درجہ مزان میں اس جوز میں اذنب قوس میں تھا ۔

پرورش
آنحضرت ابھی حمل میں ہی تھے کہ آپکے والد عبداللہ فوت ہوئے جب سن مبارک تین سال کا ہوا تو آپکی والدہ ماجدہ نے مدینہ سے واپس آتے ہوئے مقام ابوا میں انتقال فرمایا ۔ ان اللہ وانا الیہ راجعون ۔ اس کے بعد آپکے دادا عبدالمطالب ؟؟؟؟ ہوئے ۔ جب سن شریف آپ کا آٹھ برس کا ہوا تو دادا صاحب بھی فوت ہوگئے ۔ انتقال کے وقت آنحضرت کے دادا نے آپ کو اپنے چھوٹے بیٹے ابو طالب کے سپرد کیا ۔ غرض حضرت ابوطالب کی کفالت میں پچیس برس تک پرورش فرمائی اور پچیس سال کی عمر میں حضرت خادیجہ الکبریٰ سے نکاح ہوا ۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ کی عمر چالیس برس کی تھی جب سن مبارک چالیس سال کا ہوا تو بروز دوشنبہ مارہ رجب کی پانچویں تاریخ بعض روایات میں ماہ رمضان المبارک کی چوبیسویں تاریخ کو کوہ حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے تب حضرت رسالت مآب پیغمری میں معبوث ہوئے اور ماہ ربیع الاول کی پہلی تاریخ بروز پنجشنبہ بعثت کے تیرہوں سال حضرت نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی اور ماہ مذکور کی بارہویں تاریخ بروز دوشنبہ بوقت زوال آفتاب مدینہ منورہ میں ؟؟؟؟؟؟ ہوئے ۔

نحمدہ ونصلے علےٰ رسولہ الکریم


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

حمد و ثنا ء اس خالق کو دینا ہے جسے ایک سمن کے اشارے سے ہژدہ ہزار عالم کو خلق کرکے انسان معاف انسان کو اشرف المخلوقات کے مصند القب سے شرف فرمایا اور وہ اسلام اُسی حبیب ؑ کے شایاں ہے جس کی خاطر زمین اور آسمان ۔ لوح اور قلم ، عرش اور کرسی کو پیدا کیا ۔ اور جسے اپنے محبوتب کو لولاک نما خلقت اور افلاک کے کپاک خطاب سے مخاطب فرمایا ۔ واقعی وہی حبیبؑ سردار سلام ہے اور صلوات اُسکی آل اطہار علیہم اسلام کو دیبا ہے جنکی طہارت و مودت کا حکم کلام میں ذیل کی آیات سے آیا ۔ 

نمبر ۱۔ اقایردید اللہ یہزھب منکم الرجیں اہل البیت و لطہرُکم تعبیرا۔ 
نمبر ۲۔ قل لا آستکم علیہ اجرالالمودۃ فی القد۔ 
اور جناب رسالت مآب علیہم نے اُمت کے لیے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی کشتی سے فرمائی اور اُمت کے لیے اہل بیت کی سفینہ نجات ٹھہرایا ۔ مثل اہل بیتی کمثل سفینہ نوح من زکُب نجی و من تکلف عہا غرقی ۔
اور اسلام اس کے اصحاب کبار پر ملکی نجوم ہدایت کے اشارے سے منسوب فرمایا ۔ اصحابی کا النجوم بع ازاں بندہ عالمی پر معامی علی الحسن الحسینی و الگعارفی سبزوازی خم اچھو تم انلو دیانے المشہور سید علی بخش اس کتاب کی تالیف اور ترتیب کا باعث مختصر طورپر یوں بیان کرتا ہے کہ وہ بعید و مدت مدید سے مجھے اشتیاق بلا لطاق تھا کہ ابن سامات کا نسب نامہ جسقدر جمع ہوسکے جمع کروں ۔ مگر سرکارِ القلشہ کی ت کہ مخکمہ ڈاک محکمہ ڈاک میں میں فرست
 سے تعلق رکھتی ہے واقعی اس کام کی تکمیل میں مائع رہی یہ الطہرمن الشمس ہے کہ ملامت میں جس قدر اہل سادات کے نسب نامے دوستوں اور معتبر دوستوں سے ہاتھ لگے جمع کرتے گیا ۔ اب ۱۲۸۹ ؁ھ نبوی مطابق ۱۸۷۲ ؁ء میں ماکانی وقت کی مہربانی اور پنشن کا شرف حاصل کرکے خانہ نیشن ہوا تو پرگند اوراق کے جمع کرنیکا موقع ہاتھ لگا اور بصداق ابند مصرع بیکار عیاش کچھ کیا کر ۔ تمام کائنات پاتیہ کو جو آباء اجداد کے زمانے سے ابتر اور بوسیدہ اور بے ترتیب ہوئے تھے جمع کیا اور چند ایک کتابیں ہاتھ لگیں جن سے مضد مضہد معلومات کا استخراج کیا اور دوستوں اور آشناؤں سے تحقیق اور دریافت کرکے ایک مجموعہ مرب کیا جس کا نام ’’ریاض السادات‘‘ رکھا ۔ اور پانچ چمن پارہ تخلیق اور ایک خاتمہ سے مضمون پر ختم کیا اللہ جل شانہ تعالیٰ اس ریاض سے بے خزاں کو تا ابد ا لدبر سرسبز اور شادب رکھے ۔ الھم رعبنا آمین 
اب کمتین قائدین کی خمت میں التجا کرتا ہوں کہ از راہ کرم و از ریا خطا پوشے و مندنیمئی جس جگہ سہو اور کطا کا دخل عدخطہ فرمادیں تاکہ گری اور عیب جوئی نہ کریں بلکہ اصلاح بزررگانہ سے صحیح اور درست فرما کر خاسار موقف کو مرہون منت فرما دیں ۔ بندہ سے حق المقدور اس کی صحت میں کوئی دقیقہ مرد گذاشت نہیں کیا تاہم الانسان مرکب موں ؟؟؟؟؟ ولنسیان ا مفہوم پیش نظر ہے ۔ 
۔ پہلے چمن میں مآب سید الکائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفی ابی و الخصی قداہ کا مختصر۱
 حال درج کرو۔ 
۲۔ دوسرے چمن میں جناب حیدر کرار غیر فرار صاحب ذوالفقار امیر المومنین علی ؑ مرتضیٰ علیہ الصلواۃ والسلام کا مختصر حال درج ہے ۔ 
۳۔ تیسرے چمن میں حضرت خاتوں جنت سیدہ النساء الفاطمہ الزہرا علیہما اسلام کا حال درج ہے ۔ 
۴۔ چوچھے چمن میں حضرت امیر المومنین امام مسموم ؑ حیدار کرار غیر فرار حسن علیہ الصواۃ وسلام کا مختصر حاؒ ل درج ہے اور آپکی ؑ اولاد اور اصفاء کا بھی ذکر جمداً درج ہے ۔