Saturday, 31 December 2011

در بیان جناب سید ۃ النساء الفا طمۃ الز ہرا

خا تون جنت علہیا الصلو اۃ
و السلام
اسمائے مبا رک حضرت فا طمہ سیدہ النساء علہیا السلام
آپ کا اسم مبا رک فا طمہ ہے۔ متق از فطام یعنی جد ا کرنا اسرا ر عیبی ہے۔ دوم زہرا جو بمعنی در خشندہ ہے آپ کا چہرہ یہ سبب انوار سعاد ات کے شمس و قمر کی مانند روشن تھا۔ دیگر زہر ا کے معنی حیض و نفا س و دیگر آلو د گئے نسواں سے پاک ہونیکے ہیں۔ 
حلیہ مبارک
بتول کے معنی بھی حیض و نفا س سے پاکیزہ ہو چکے ہیں۔ اور بتول غدرا بمعنی صاحب اولاد کے ہیں یعنی چا ر لڑکیوں میں سے یہی صاحب اولاد تھیں۔ عژا با معنی ہرر خسارہ یعنی ہر دور خسارہ سے نشان اولاد درخشندہ تھے چنانچہ حضرت حسن ؑ و حسین ؑ دگو شوارہ کی مانند ہے اپ کے اس مائے مبارک فاتمہ اور ضہرا کے علاوہ اور بھی ہے خیرۃ النساء ؑ سید ا نسا رضیہؑ ،مرتضہ ؑ سیدہ النساء ؑ ، رضیہ ، مرتٖہ ؑ ، سیدہ ؑ ، مورثہ ؑ ، طاہرہ ؑ ، زکیہ ؑ ، میمونہؑ ، معصومہ ؑ ، ،خدومہؑ ، بضفہ النبی ؑ ، درہ البضاؑ ، صادفی عذراؑ بنت ۔ ا؛بؒ تار۔ ش،ہ،پ روز کدْ اس لء ع؛اوپ اور بھی آپکے اسمائے مبارک ہیں ۔ یہاں مشہور مشہور لکھے گئے ہیں ۔ 

القاب مبارک 
ام المومنین ؑ ، ام لائمہ ؑ ، ام المعصومین ؑ ، ام الحسنؑ ، ام الحسین ، ام الفجسرہؑ ، ام الفنائلؑ ، ام الاغیارؑ ، ام الازارؑ ، ام المعلوم ؑ اور بعض کتابوں میں ام الکتاب بھی آپکی کنیت بھی ہے ۔
والدین 
آپکے والد ماجد کا نام محبوب خدا محمدمصطفی (روخی فداہ) تھا آپکی والدہ ماجدہ خدیجہ الکبریٰ بنت خویلد بن اسد بنبن عبدلقرابن قضیٰ بن کلاب ہیں روایت میں ہے کہ بہشت میں تمام عورتوں سے چار عورتیں بہتر ہیں اول خدیجہ بنت خویلد ۔ فاطمہ بنت حضرت سرور کائنات محمد مصطفی۔ مریم بنت عمران مادر حضرت عیسیٰ ؑ والسلام ۔ آسیدہ زوجہ خر عوف ۔ 

مدت حمل 
جب حضرت خاتون جنت فاطمہ الزہرا سیدہ النساء کے ظہور کا وقت قریب ہوا ۔ تو حضرت جبریل ؑ نے جناب محمد مصطفی کیخدمت مبارک میں پیغام باری تعالیٰ عزاسمہ و گزارش کیا کہ خدا ئے جل شانہ کا حکم ہے کہ آپ چالیس روز تک طعام دنیوی ترک فرمائیں اور امور دنیا سے دست بردار رہیں ۔ ان کو مالم میں یعنی روزہ رکھیں اور رات کو عبادت میں مشغول رہیں تبگ حضرت ؑ نے جناب باری تعالیٰ کے حکم کی تعمیل فرمائی اور ان چالیس روزوں میں بوقت افطار صرف رطب اور الخبیر بہشتی جو حضرت جبریل ؑ تازہ لایا کرتے تھے ۔ نازل فرماتے رہے۔ اور لطفہ ، مبارک صلب رسول خدا میں طعام بہشت سے پہنچا ۔ چالیسویں رات کو بعد نماز عشا حضرت خدیجہ الکبریٰ سے مقارب ہوئے اور اسی شب میں حمل قرار پایا اور نو ماہ کے بعد آپکی پیدائش ہوئی ۔ اور حضرت خدیجہ روایت فرماتی ہیں کہ اول تین ماہ میں قبل از پیدائش کم میں باتیں کرتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں ۔ اور مجھکو تسلی بھی دیا کرتی تھیں اور کبھی کبھی قرآن شریف کی تلاوت بھی فرمایا کرتی تھیں ۔ اور مشرق و مغرب سے زمین و آسمان کے پردے میری نظر سے اُٹھائے گے اور وضع حمل کے بعد وہ تمام حالتیں ضائع ہوگئیں ۔
سن ولادت 
بیسویں تاریخ ماہ جمادی الثانی سال ۴۵ عام الفیل سال پنجم بعثت پیدا ہوئیں ۔ بعض کا قول ہے کہ چار سال دو ماہ تین روز اور بعض لکھتے ہیں کہ دوسرا سال تھا ۔ غرض اُسوقت شہر یار کا بیٹا یہود ؟؟؟؟ سر حکموت تھا ۔ خاص مکہ معظمہ میں سبحانہ رسول خدا پیدا ہوئیں بعض لکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کا گھر تھا۔ 
روائت ہے کہ جب وضع حمل کا وقت قریب آیا تو قر یش کی عورت کو حضر ت خدیجہ نے طلب فرمایا تو سب نے جوا ب دیا کہ تو نے ہماری اجازت کے بعد ابو طالب کے تییم محمدبن عبد اللہ سے نکاح یکا ہم نہں آینگے یہ جواب سنکر حضر ت خدیجہ مایو س ہوگئیں اسی وقت خدا تعالیٰ کے فرمان سے حضر ت مرتم بنت عمران مادر حضر ت عیسیٰ علیہ اسلام اور آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون مع لملاکہ کثیر و حو ان بہشت خدیجہ الکبری کی خدمت میں بہشی اسبا ب کے ساتھ ماضر ہوئیں جو عورتوں کے متعلق خدمت ہوتی ہے سب کا لائیں 
حال زوجیت حضر ت خاتون جنت ؑ :۔جب سن شریف آپکا دس رس کا ہوا اور حضر ت امر المو مینن علی ؑ مرتضیٰ کی عمر مبارک پچس سال کی تھی ۔تو چو بیس رمضان المبارک کی رات کو ایک سا ل ہجرت سے نکا ح کی 
تقریب پیش آئی ۔بعض لکھتے ہیں کہ پندرھویں رجب المر جب سن مذکور بجطاب حضر ت جبر یل علیہ السلام و شہادت میکا ئیل و قر مائیل اسراجیل و دیگر لمد ئکہ مقر بن بت المعمورمیں بالا نے کرسی تو ر خطبہ و ضیعہ پڑ ھا گیا ۔اور نکاح کا قبالہ ملا ئیکہ کی پہروں کے ساتھ آنحضر ت کی خدمت میں لا یا گیا اور حضر ت نے مسجد مد نیہ منورہ میں کا فرے صحابہ وسا ئر مسلمین حضر ت علی کے ساتھ پا نچسو درھم کا نکاح مقر ر کیا اور و لیمہ عروسی چند صاع نان اور ایک ھو سفند بہ یان کچھ روغن اور کسی قدر فرما کے ساتھ کیا اور چار ہزار آدمیو ں نے کھا یا ۔بہت سے اور کھانا لے گئے ۔آپکی برکت سے ابھی کھانا با قی تھا ۔
تاریخ زفاف 
پہلی تاریخ ماہ ذوالحج بعض کے قول سے چھٹی ماہ ذوالحج کو اسی سال زمان ہوا۔ 
علت وفات :۔ بقول اہل سنت والجما عت باملہ موعودہ بیمار رہ کر وفات پائی ۔ اور بقول اہل تشعیہ حضر ت عمر بن خطاب کے دروازے پر لدت مارنے سے کواڑ کی ضرب آپکے شکم مبارک پر لگی والجاعت کے نزدیک کچھ وقعات نہیں اور بعض علماء نے سنت والجماعت پدر نہ رگوار کی مفارتت کی وجہ بتائے ہیں ۔ثاتواں ہوتے ہوتے وفات پائی ۔موادی عبدالعز یز صاحب مدث دہلوی اپنی کتاب ستر الشہادتین میں روایا ت صحاح ستہ سے لکھتے ہیں۔کہ حضر ت محسن علیہ السلام پید ائش کے بعد تین ماہ زندہ رہ کر یہ تقد یر ایزدی اس جہان فافی سے خصت ہوئے ۔حضرت فاطمہ کی وفات دوشنبہ کے دن بوقت عصر بتاریخ ۳ ماہ رمضان المبارک بعض کے قول کے بموجب پچیس ۲۵ ماہ رجب المرجب اور بقوے ۳ ماہ جمادی الشانی ہجرت کے گیارھویں سال وقوع میں آئی ۔اور اسی شب تن تنہا بنفس نفیس حضرت امیر المومینن علی کرم اللہ وجہ بعم خود عباس ؑ وفضل بن عباس نے حضرت فاطمہ کو دجن کیا ۔کوئی بھی صحابہ میں سے جنازہ پر نہں او ر کسی کو بھی خبر نہ ہوئی ۔اور غالہ آپکی اسمانبت عمیس تھی اور بعض کے قو ل سے پتہ چلتا ہے کہ روح پاک کے قبض ہونے سے پہلے غسل کرلیا تھا ۔وہی کتضی ہوا ۔وللہ عالم باالصواب ۔
مزار مبارک :۔ 
آپکا مزار مبارک حضر ت رسول فدا علیہ لصلواۃ والسلام کے ممبر کے مابین واقع ہوا بعضوں کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ بمقام جنت بقیع میں اور بعضوں کے خیال میں اپنے گھر میں ہی جس جگہ آپکا وصال ہوا تھا ۔مزار ہے ۔حضر ت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں جب وصیت دفن کیا واللہ عالم بالعی
تعداد عمر مبارک :۔ 
اٹھارہ برس ایک ماہ دس روز آپ ؑ کی عمر تھی ۔ آٹھ برس قبل از ہجر ت اور دس برس ایک ماہ دس روز بعد از ہجرت زندہ رہیں ۔ صحیح روائیت یہ ہے کہ آپکی عمر سترہ ۱۷ روز کم اٹھارہ برس کی تھی سات برس نو ۹ مہینے قبل از ہجرت مکہ مفطمہ میں اور نو برس گیارہ ماہ ستائیس روز مدنیہ میں اور دو ماہ پانچ روز بعد وفات حضر ت رسول مقبول ملعم زندہ ہین ۔ بعض لکھتے ہیں کہ حضر ت کے انتقال کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور حضر ت امام حسن کی پید ائش کے وقت آپکا سن شریف پندرہ برس تھا اور حضر ت مخدوم جہانیاں کی روائیت سے گیارہ برس کی عمر تھی کہ حضر ت امام حسن پیداہوئے ۔ 

تعدا د اولا د حضرت فا طمہ خا تون جنت 
حضرت اما م حسنؑ شبر لقب حضرت امام حسینؑ شبیر لقب اور حضرت محسن ؑ شبر لقب ۔ زینت کبرا ؑ ۔ زینت صغر ا ؑ یعنی ام کلثوم اخلاق داو صاف ۔ جناب حسنین اظہر من الشمس ہیں اور حضرت زنیت کریٰ بھی نہایت زیرک اور دانا تھیں جب کہ دربار یزید میں دیری سے گفتگو فر مائی کہ اہل در بار دنگ رہ گئے فضا حت و بلا غت میں بے نظیر تھیں۔ حا جت تحریر نہیں اور حضرت زنیت صغرا ؑ یعنی ام کلثوم بہت ہی سادہ طبیعت تھیں۔ اکثر کتب سے واضع ہے کہ حضرت خاتون جنت سید ہ النساء کی اولاد انہی دو شہز ادوں یعنی حضرت امام حسن و امام حسین سے باقی ہے اور تا قیامت منقطع نہیں ہوگی۔ خواہ یز ید جیسے لا کھون کیوں نہ پید ا ہو جائیں یہ خد ا کا فضل اور احسان ہے اکثر اولیا ء آئمہ و پیشوا ۔ غو ث قطب ۔ ابدال ، اوتا د انہی صاحبزاد گان کی اولاد سے ہوئے ہیں۔ اور ہوتے رہینگے اب دو شہز ادوں کا حال اور انکی اولا د کا حال علیحدہ علیحدہ لکھا جائیگا۔

No comments:

Post a Comment