Saturday, 31 December 2011

دربیان امیر المومنین حضرت حیدر کرار ؑ غیر فر ار صاحب ذولفقار

علیؑ مر تضیٰ شیر خدا
علیہ الصلواۃ
والسلام
اسم مبار ک آپ کے ایک ہزار ہیں۔ مگر سب سے زیادہ مشہو ر علیؓ کے نام سے ہیں۔ 
القاب مبارک: مر تضیٰ ، حید ر ، صفدر، قدر ت اللہ، حبیب اللہ، اسد اللہ، سیف اللہ، حجت اللہ نو ر اللہ، طہٰ، یٰسین، قمر، زیتون، ایلیا، امر المومنین، امام المتقین ، اعسو ب الدین، قائد الغر المجالین، ذوالقرنین، والد البسطین، غالب، کر ار، غیر فر ار ، جر ار، سر الا سرار، مطلوب، کل مطلوب، مظہر العجائب مظہر النعر ائب ، صدیق الاکبر، فار ق اعظم، حا صف النعل، کشا ف الکر وب ، اخ رسول ، قر ن من الحدید روج بتول، لسان الصد ق، امام الاول، ہا دی، داعی، شاہد، کتاب المبین، مقیم الحجر ، قسیم الجنت والنا ر قاتل الکفار، وصی الاولیا، قاسم الجبارین، زین المجا ہدین، صر اۃ المستقیم، عماد الا تقیا ، نا صیح مائے مجتہد ، مصباح ایضا، مخلص الصفے، سا قی الکو ثر ، صاحب اللوا ، صاحب الحوض ، غیاث المکربین، بین المشکلات، صاحب ید بیضا، وغیرہ القاب ہیں۔ مختصر لکھے گئے ہیں۔ تفصیل کی گنجائش نہیں۔ انہی القاب سے نام بھی مشہو ر ہیں۔ 
کنیت: ابو الحسن، ابوا لحسین، ایو تراب، ابوالخاخقین۔ 
مد ت حمل: نو ماہ نو روز کے بعد آپکی پید ائش ہوئی۔ 
تا ریخ ولا دت : بر وائت مشہو ر معلوم ہوتا ہے۔ کہ جنابؑ کی پید ائش اٹھا رویں رجب المر جب ۱۰۵۰ ؁ء سکندری مطا بق ۲۸ ؁ عام الفیل ہوئی تھی ۔ نبوت سے دس بر س چھ روز پہلے لطا لع مر یخ کہ شجا عت کی علا مت ہے۔ کعبہ شر یف میں پید ائش ہوئی۔ ایسا رتبہ اول اور آخر کسی کو نہیں ملا۔
ہے شایان تجھے کو ہی تاج امامت ہے زیبا تجھے ہی قبائے ولا ئت
تیرے فیض سے ہی ہے نام سخا وت بھلا کسکی بڑھکر ہے تجھ سے شرا فت 
کسے را میسر نش د ایں سعا دت 
بکعبہ ولا دت بہ مسجد تشہا دت
تیرے دم سے روشن ہے مر عبا دت تیرے نام سے ہی ہے نام شجا عت 
رواں تیرے دم سے ہے آب کر امت ترے دم سے جاری فیص سعا دت 
کسے را میسر نش ایں سعا دت
بکعبہ ولا دت بہ مسجد شھا دت 
حضرت عیٰسی علیہ السلام کی والدہ ما جدہ حضرت مر یم علیہ السلام کو جو مسجد اقصیٰ میں سکونت فر مایا کر تی تھیں۔ بو قت وضع حمل وہاں سے چلے جا نے کا حکم صادر ہوا۔ 
سن شر یف: تر یسٹھ بر س دو ماہ سات روز آپکی عمر تھی۔ تینتس ۳۳ برس سات ماہ سات روز جناب رسالت مآب حضرت رسالت پنا ہ محمد مصطفی ؐ کی خد مت با بر کت رہے دس بر س چو دہ روز نبو ت سے پہلے اور بائیس بر س ساتھ ما ہ تین روز بعثت کے بعد جناب صلعم کی خد مات فیص در جات سے مستفیض ہوتے رہے۔ 
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی خلا فت میں دو بر س تین مہینے سات روز اور حضرت عمر خطابؓ کی خلا فت میں تقریباً ۱۳ برس اور حضرت عثمان بن عفا نؓ کے شہید ہونیکے بعد چار بر س بائیس روز خو د بد ولت ؑ خلافت ظاہری سے مشر ف ہوئے ۔ تہوار اور شجا عت و سخا وت جناب کا ضرب المثل اور زبان زد عوام و خواص ہے۔ تحریر و تقریر کے احاط سے با ہر ہے۔ 
حلیہ مبارک: میانہ قامت ، روئے مد و ر مانند لیلۃ البدر ، گو ش سرخ مانند طبق لعل، ابر وئے کشا دہ نز اکت
میں مانند ہلال ، (بال)موئے گنجان سر خ، گردن بلند و در از ، رنگت میں مانند نقرہ، شانے چوڑے، با زو سخت، اعضا قوی و تنومند، عظیم البطن، وسینہ قوی کشا دہ ، جناب کسی لڑائی میں مضطر اور بیقر ار نہیں ہوتے تھے۔ حملہ کے وقت چہرہ آپکا سر خ ہو جا تا تھا۔ فتو حات آپکی بے شمار ہیں۔ تلوار یں آپ کی د وتھیں۔ ایک قمقام ، دوسری ذوالفقار ، اور گھوڑے کانام دلدل تھا۔ 
اسمائے از وج آنحضرت امیر المو منین کر م الد وجہ : فا طمہؑ بنت محمد ؐ ، خولہ بنت جعفر بن قیس طنفہ ، امام بنت ابو العا ص، ام حبیبہ بنت ربیعہ لیلی بنت مسعود اسما بنت عمیس ، ام مسعود بنت عر وہ بن مسعود، ام النبین بنت حرام بن ربیعہ ، حجا رہ بنت امراۃ القید اکلامی، ام البشارۃ بنت حرام بن خالد بن ربیعہ الوحید۔ 
یادر رہے کہ جب تک حضر ت فاطمہ بنت رسول اللہ علیہا الصلواۃ وا لسلام زندہ ہیں۔ کوئی عورت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ الصلواۃ والسلام کے نکاح میں نہیں آئی۔ اور حضر ت خا تون جنتؑ کی اولا د یہ ہے ۔ حسنؑ ، حسین ؑ ، محسنؑ ، زینت الکبریٰؑ ، زینت صغرا ؑ ، ام کلثوم ، بعد وفا ت حضرت سید ہ النساء کے ہیں عور تیں نکاح میں ائیں چنانچہ۔ 
محمد حنیفہ بطن خولہ بنت جعفر سے اور رقیہ و عمر ہر دو بطن ام حبیبہ سے اور عباس غازی کہ نہایت حسن و جمال رکھتا تھا۔ اور انکو ماہِ شیم کہتے تھے۔ وہ بھی ام حبیبہ کے بطن سے تھے اور ابو بکر ، عبدا للہ، اصغر بطن لیلیٰ بنت مسعود سے۔ اس یسحٰی و عون بطن اسما بنت عمیس سے اور اسما بنت عمیس سے پہلے جعفر طیار کی زوجہ تھی۔ ان کے بیٹے ، عبداللہ اور محمد ؐ ہیں۔ جنگ مو تہ میں جعفر طیار کی شہا دت کے بعد اسما کو ابوبکرؓ اپنے نکاح میں لائے۔ ان کا لڑکا محمدؐ بن ابو بکر ہے۔ حضر ت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کی زوجہ ہوئیں محمد بن ابوبکر دوسال کی عمرمیںآیا تھا۔ چنانچہ یحٰی و عون و محمد بن ابوبکر بر ادارن ما دری ہیں۔ اور بعض شیعہ یہ بھی کہتے ہین کہ ام کلثوم حضر ت ابو بکرکی لڑکی تھی۔ حضرت ابو بکر کی وفا ت کے بعد ام کلثوم حضرت علی ؑ کے گھر میں آئی۔ اور اسی کی نکا ح حضر ت علیؑ سے کیا گیا۔ 
ام ہانی ۔ ام کرام۔ حعضر، ام سلمہ ، میمونہ ، خد یجہ ، صغرا ، فا طمہ ،عبد اللہ، عبدالد ا و سط ، محمد اوسط محمد اصغر، طلحہ و اوف ، وزید ، ام کلثوم، صغرا رملہ ، رملہ صغرا ، ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ ماں تھی۔ ام الحسن ، رملہ یہ ہر دو علیحدہ سیھ ہیں۔ اور محمد اکبر المشہور محمد حنفیہ کنیت او القاسم کو فر یق المختاریہ جو شیعہ میں سے ہے۔ امام جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد محمد زین العابدین امام ہیں۔ 
والدین: آپ کے والد کا نام عمر کنیت ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد منا ف تھا اور آپکی والدہ ما جدہ فا طمہ بنت اس بن ہاشم بن عبد منا ف تھیں اور یہ فا طمہ ر سول خد اصلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی مر یبہ تھیں۔ 
سن شہا دت : ۱۹ ماہ رمضان المبار ک ۴ ھجری نبوی المقدس ، ۹۳ ام الفیل مطابق ۸۳ بعثت مسجد کو فہ میں عبدالرحمن ابن لجم مر ادی کی تلو ار کی ضر ب سے آپ زخمی ہوئے اور اکیسویں رمضان المبار ک کو یعنی تیسرے روز وفات پائی۔ اور درجہ شہادت سے ممتاز و مشر ف ہوئے انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ حضرت حسین ؑ و دیگر فر زند ان ؑ نے غسل دیا اور نعش مبارک کو کفن سے ڈھانپ کر تخت پر رکھ دیا۔ نعش مبا رک نظر سے غائب ہوگئی۔ عر صہ قلیل کے بعد ظاہر ہوئی۔ کہتے ہیں کہ فر شتے آسمان پر لے گئے تھے اور بعض کا قول ہے کہ حضرت حسین ؑ نے وصیت کے بمو جب تخت کو پکڑا۔ تخت خو د بخود روانہ ہوا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ و میکائیل ؑ اٹھا کر لے گئے۔ اس روز نعش مبار ک سے بہت عجائب و غرائب باتیں ظہور میں آئیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تخت کو لے جاتے تھے کہ ایک شخص نقاب پوش آیا اور شتر کو جو نعشن مبارک کا حامل تھا مہار سے پکڑ ا لیا گیا۔ آخر معلوم ہو اکہ عین حضرت علیؑ کی شکل کا کوئی آدمی تھا۔ جب مقام مد فون پر پہنچا تو تخت خو د بخو د زمین پر نا زل ہو ااسی جگہ مد فون ہوئے چنا نچہ قبر مبارک خلیفہ ہارون رشید عباسی کے زمانے تک مخفی رہی اتفاق سے خلیفہ ہا رون رشید صحرا میں شکار کھیلتا ہوا اسی میدا ن میں جا نکلا تو ایک ہرن دیکھا اور چاہا کہ اسے شاکر کر ے چنا نچہ ہر ن بھا گتا ہو اپہاڑ کے ایک ٹیلہ پر جا کر پناہ گزین ہوا آخر بعد جست وجو کے معلوم ہوا کہ آپکی قبر مبارک اسی جگہ
ہے۔ اور اسی مقام کا نام نجف اشرف ہے۔ اور حضرت نو ح علی نبینا ؑ اور تابوت حضر ت آدم صیفی اللہ و علی بینا علیہ الصلواہ والسلام اسی جگہ مد فون ہیں۔ واللہ عالم با لصواب۔ 
تعدا د اولاد آنحضرت علیہ الصلواۃ والسلام۔
حضرت کی اولاد میں بہت اختلاف ہے بروایت متحبرہ ومشہورا ارہ بیٹے انیس بیٹیاں تھیں ذیل کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے۔حسنؑ ۔ حسینؑ ۔ محسنؑ ۔ محمداکبرؑ ۔المشہود۔محمدحنیفہؑ ۔ عباسؑ ۔عثمانؑ ۔جعفرؑ ۔یحیؑ ٰ۔فضل ؑ ۔عونؑ ۔ عمرؑ ۔محمداوسطؑ ۔محمداصغرؑ ۔ابوبکرؑ ۔طلحہؑ ۔زیدؑ عوفؑ ۔ان میں سے آٹھ پسران بہمرائے حضرت امام حسینؑ کربلا معلی میں شہید ہوے یعنی عبد البد ین علی ؑ ، عبا س ؑ ، عثمان ؑ ، جعفر ؑ فض ؑ ، عون ؑ ، ابوبکر ؑ ، صر ف پانچ لڑ کوں سے ؟؟؟؟؟؟؟؟ با قی ہے۔ حضر ت امام حسین ؑ ، امام حسین ؑ ۔، حضرت عباس ؑ ، حضرت محمد حنیفہ ؑ ، حضرت عمر ؑ ، چنا نچہ ذکر اولاد حسین جو سیط رسول مقبل تھی ،۔ آئند ہ لکھا جائیگا ۔ سوائے ان پانچ لڑکو ں کے اور سب اولا د فو ت ہوئے اب لڑکیوں کے نام ذیل کی تفصیل سے معلوم ہو تے ہیں۔ 
اسماء دختران : زنیت اکبرؑ ، زینت اصغر ؑ ، ام کلثومؑ ، رقیہ ؑ ، ام ہانی ؑ ، میمو نہ ؑ ، ام الحسن ؑ ، صغرا فاطمہ ؑ ، آمنہ ؑ ، خد یجہ ؑ ، ام کرام ؑ ، ام سلمیٰ ، حمائیہ ؑ ، فضیہٰ ، ام جعفر خد یجہ صغرا ؑ ، مر یم ؑ ، ارملہ صغر ا ؑ ۔ 
آنحضر ت کرم اللہ وجہ کے فضائل سخا وت و کرامت وشجا عت احاطہ بیان سے با ہر ہیں۔ اس مختصر کا پی میں اسکی گنجائش نہیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ حضرت امام حسین کی اولاد کا حال لکھوں جو اہل سادات سے خطاب کئے جاتے ہیں اسلئے اسی طرف متو جہ ہو تا ہوں۔ خد اواند کریم تو فیق بخشے ۱۳ شوال ۱۳۳۳ ؁ء ھجری نبوی۔ 


No comments:

Post a Comment